نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال خطہ ہونے کے باوجود بدقسمتی سے بلوچستان کے باشندے بھوک، افلاس اور نوآبادیاتی تسلط کے شکار ہیں۔ بلوچستان سے نکلنے والے سونا، تانبا، کرومائیٹ، کوئلہ، گیس اوردیگرمعدنیات نے بیرونی کمپنیوں اورپنجاب کے صنعتی شعبے کو فائدہ پہنچانے کے سوا بلوچستان کے عوام کا صرف بدترین استحصال ہی کیا ہے۔ جب ان ظلم وزیادتیوں کے خلاف بلوچ بحیثیت قوم اپنی آواز بلند کرتے ہیں تو اسے سرکاری جبروتشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آئین بنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تدارک کیا جاسکے اور یہ ذمہ داری عدلیہ کی ہوتی ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے۔ بدقسمتی سے ایک دفعہ پھر ریکوڈک معاہدے کومنظر عام پر نہ لاکر بلوچستان کے عوام کی بنیادی حقوق پرڈھاکہ ڈالا جارہاہے، قانون کی بالادستی اس شرط پر قائم رہ سکتی ہے اگر یہ اپنے اندر مکمل صاف و شفاف ہو۔
” بیرک گولڈ” اور ”انٹاگوفیسٹا” وہی بیرونی کمپنیاں ہیں جن کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2013ء میں ملکی قوانین کے برخلاف اس وقت کے ریکوڈک معاہدے کو کالعدم قراردیاتھا، جس پر ورلڈ بینک کے ماتحت ادارہ‘‘ آئی سی ایس ڈی‘‘ نے پاکستان پر 6بلین ڈالرکا جرمانہ عائد کیاتھا۔ بجائے کہ ‘‘آئی سی ایس ڈی ‘‘کے فیصلے پر عالمی عدالت میں اپیل کرتے، اس کے برعکس ریکوڈک کو ایک دفعہ پھر انہی متنازعہ کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کو تشکیل دے دیاگیا ہے اور افسوس اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ فیصلے پر ہے کہ بلوچستان کے عوام کی دادرسی کرنے کے بجائے ریکوڈک معاہدے کی توثیق کرکے نوآبادیاتی پالیسیوں کے شکنجے کو مضبوط کرکے قانونی مہرلگادی گئی ہے اور بیرونی قرضوں سے جان چھڑانے کے لئے ایک دفعہ پھر بلوچستان کی سر زمین کا سودا لگایا گیا ہے۔