کوئٹہ:
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ 2017ءکے خانہ شماری اور مردم شماری لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو بطور مہاجر شمار کیا گیا تھا مگر اب سازش کے تحت لاکھوں افغان مہاجر خاندانوں کو حالیہ حلقہ بندیوں اور مقامی آبادی کے ساتھ ان کو شمار کرنا قابل مذمت عمل ہے- مہاجرین چاہئے کسی بھی قوم و زبان سے تعلق رکھتے ہیں انہیں کسی بھی قانون کے تحت مقامی آبادی کے ساتھ شمار کرکے حلقہ بندیاں کرنا درست اقدام نہیں جبکہ بہت سے لوگ سیاسی و گروہی مفادات کی خاطر ایسی کوششیں کر رہے ہیں-
بی این پی شروع سے یہ کہتی آ رہی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین بلوچستان سے شناختی کارڈ ‘ پاسپورٹ حاصل کر چکے ہیں ہونا تو یہ چاہئے کہ 1979ءکے بعد سے اب تک تمام شناختی کارڈز اور پاسپورٹس کی تصدیق کی جاتی لیکن نادرا اور دیگر سرکاری دفاتر کی نااہلی کی وجہ سے بلوچستان میں افغان مہاجرین کی مختلف ادوار میں آباد کاری کی جاتی رہی وہ غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے کوئٹہ کے تمام مقامی بلوچ پشتون ‘ ہزارہ پنجابی جتنی آبادی ہے یہ سب افغان مہاجرین کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں-
بیان میں کہا گیا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں بلاک شناختی کارڈز کو بحالی کرایا جا رہا ہے ہائی کورٹ کا آرڈر ہے کہ افغان مہاجرین کو خانہ شماری ‘ مردم شماری سے دور رکھا جائے مگر حالیہ حلقہ بندیوں میں سازش کے تحت چار لاکھ سے زائد افغان مہاجر خاندانوں کو حلقہ بندیوں کا حصہ بنانا قابل افسوس امر ہے- بلوچستان کو یتیم خانہ سمجھ کر اپنی مرضی سے لوگوں کو یہاں آباد کر کے مقامی لوگوں کی حق تلفی کی ٹھان لی گئی ہے- بی این پی واضح کرنا چاہتی ہے کہ ہم افغان مہاجرین کو حلقہ بندیوں کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دیں گے حکومتی اقدام پر بھی یہ امر غیر قانونی اقدام ہوگا- الیکشن کمیشن آف پاکستان ‘ محکمہ شماریات کے صوبائی ارباب و اختیار ‘ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس عمل کا باریک بینی سے جائزہ لے خانہ شماری ‘ مردم شماری کے وقت کون سے بلاک اور علاقوں کی آبادی تھی جو افغانی تھے ان کا تعلق ہمسایہ ملک افغانستان سے تھا اب انہیں سسٹم کا حصہ بنایا جا رہا ہے یہ انتہائی ناروا سلوک ہے تمام محکموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھ کر شماریات کی رپورٹ دیکھی جائے کہ 5لاکھ سے زائد افغان خاندان کوئٹہ میں رہائش پذیر تھے اور وہ خود ہی کہتے رہے کہ وہ افغان مہاجر ہیں مگر اب سازش کے تحت کوئٹہ کے مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور یہاں پر دانستہ طورپر افغان مہاجرین کو مسلط کرنے کی ناروا پالیسیوں کو دوام دے رہے ہیں بلدیاتی انتخابات میں جو حلقہ بندیاں کی گئی اسی میں ان کا شامل کرنا ناقابل برداشت ہے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر قانونی اقدامات کے مترادف نہ بنیں-
اس حوالے سے بی این پی کی پالیسی واضح ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں آبادی آباد ہے ان کو باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے 1979ءکے بعد سے جاری دستایزات کی جانچ پڑتال کی جائے 2017ءکے مردم شماری کو مد نظر رکھتے ہوئے افغان مہاجرین کے بلاکس کو علیحدہ کیا گیا اب انہیں کوئٹہ کی آبادی کی حلقہ بندیوں میں شمار نہ کیا جائے کیونکہ محکمہ شماریات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ افغان مہاجرین ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ حلقہ بندیاں برابری کی بنیاد پر تقسیم ہیں وہ مثبت اقدام ہے سابق ادوار میں چند حلقے لاکھوں کی تعداد میں اور چند ہزاروں کی تعداد پر مشتمل ہے اب برابری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں مثبت ہیں محکمہ شماریات ‘ الیکشن کمیشن اور لوکل گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ 2017ءکے بلاکسز میں غیر ملکیوں کو حالیہ حلقہ بندیوں میں مقامی آبادی کے ساتھ منسلک نہ کیا جائے کیونکہ یہ تمام اقوام کیلئے خطرناک ثابت ہوگا اور مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل ہوگی۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.