لاپتہ راشد حسین بلوچ کی گمشدگی کے واقعہ کے چار سال مکمل ہونے اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے حب میں لاپتہ افراد کے لواحقین و مختلف سیاسی وسماجی جماعتوں وتنظیموں کے رہنماؤں وکارکنوں کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت وائس فار بلوچ مسنگ پرسن، بلوچ یکجہتی کمیٹی، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، بی ایس او (پجار)، بی ایس ایف کے رہنماؤں، کارکنوں اور نوجوانوں نے شرکت کی۔
ریلی شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کے فوٹو پینافلکس و پوسٹر اٹھا کر کوئٹہ کراچی شاہراہ پر گشت کیا اور لاپتہ بلوچ افراد کو منظر عام پر لانے اور انہیں بازیاب کرانے کے نعرے لگائے۔ ریلی مینRCDشاہراہ سے ہوتا ہوا لسبیلہ پریس کلب پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی۔
اس موقع پر ریلی کے شرکاء سے لاپتہ نوجوان راشد حسین کی والدہ بس خاتون، وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کی سیکرٹری جنرل سمی بلوچ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی چیئرمین آمنہ بلوچ،سیماء بلوچ،ماہ زیب،BSO(پجار) کے سابق چیئرمین واحد رحیم بلوچ،سابق چیئرمین و نیشنل پارٹی کے رہنماء کامریڈ عمران بلوچ،عوامی نیشنل پارٹی لسبیلہ کے رہنماء ایڈوکیٹ نواز علی برفت، ہیو،من ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن قلات ڈویژن کے صدر عبداللہ بلوچ،BSO(پجار)کے رہنماء عار ف بلوچ،BSFحب کے رہنماء حمل انگاریہ،محمد اسحاق و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راشد حسین بلوچ کی جبری گمشدگی کو چارمکمل ہوگئے آج سے چار سال قبل راشد حسین کو متحدہ عرب امارات سے لاپتہ کردیا گیا جب وہ متحدہ عرب امارات میں محنت مزدوری کرتا تھا انہیں سول کپڑوں میں ملبوس افراد گاڑ ی سے اْتار کر لے گئے تھے اور چار سال کے بعد بھی انہیں منظر عام پر نہیں لایا جارہا ہے ان کی گمشدگی کے حوالے سے پاکستان کے عدالتوں میں پٹیشن داخل کی گئیں ہیں اب تک معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہے۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو لاپتہ کرنا نئی بات نہیں ہے اور مسنگ پرسن کے لواحقین اپنے پیاروں کیلئے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کرنے پر مجبورہیں اپنے پیاروں کی بازیابی اور منظر عام پر آنے کے آس لیئے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں انھوں نے کہاکہ ان ماؤں کے دل کا حال پوچھا جائے کہ انکے لخت جگروں اور ان بہنوں کا حال پوچھا جائے جن کے نوجوان بھائی اور اس والد کے دل سے کیا گزر تا ہے جس کا نوجوان بیٹا لاپتہ کیا جاتا ہے اور کئی کئی سال تک ان کا کوئی اتا پتا تک نہیں ہوتا کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہیں، یہ سوچ سوچ کر بعض ذہنی توازن کھو چکے ہیں اور پریشانی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور ہر وقت یہی سوچتے ہیں کہ لخت جگر ایک نہ ایک دن بازیاب ہونگے لیکن ہماری باتیں سننے والا کوئی امید لگائے بیٹھے ہیں انکے پیارے بازیاب ہو کر آجائینگے۔
انھوں نے کہاکہ پاکستان میں بلوچ خواتین سڑکوں پر اس لیئے سراپا احتجاج ہیں کہ انکے پیاروں کو لاپتہ کردیا گیا ہے کسی کو یہ شوق نہیں کہ وہ سڑکوں اور پریس کلبز کے سامنے روزانہ آئیں وہ مجبور ہیں انھوں نے کہاکہ بلوچستا ن کے جتنے بھی نوجوانوں لاپتہ ہیں اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو انہیں منظر عام پر لاکر عدالتوں میں پیش کیا جائے نہ انہیں قید وبند کر کے غائب کیا جائے۔
مقررین نے مزید کہاکہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی عدالتوں پر بھروسہ نہیں ہے اور ہمیشہ بلوچوں پر چڑھائی ہوتی آئی ہے، ہزارو ں کو لاپتہ کردیا گیا ہے اور سینکڑوں جاں بحق کردیئے گئے جب تک بلوچ یکجا نہیں ہوتے ان کے ساحل اور وسائل اور حقوق محفوظ نہیں ہونگے۔
انھوں نے کہاکہ گزشتہ کئی سال سے ہماری مائیں بہنیں اور نوجوان،بزرگ اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے کے خلاف اور انکی بازیابی کیلئے احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ بلوچستان میں مشرف نے جو آگ لگایا تھا آج پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور بلوچستان میں آگ وخون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا، بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے سے نفرتوں کے بیج بوئے جارہے ہیں۔
مقررین نے مزید کہا کہ 1947ء میں ملک میں جو قانون بنایا گیا تھا آج اسی کی خلا ف وزی کی جارہی ہے لاپتہ افراد کو تین دن کے اندر عدالتوں میں پیش کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اس قانون کو پس پشت ڈالا گیا ہے، لاپتہ افراد کومنظر عام پرلانے کے بجائے مزید ہمارے بزرگوں،نوجوانوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے اور انہیں مختلف مقابلوں میں شہید کیا جاتا ہے، بلوچوں پر ایسے حالات مسلط کئے گئے ہیں ان کے پاس اپنے حقوق مانگے اور اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے راشد حسین بلوچ کی جبری گمشدگی کو چار سال مکمل ہوئے ہیں جس کفیت سے انکی والدہ سمیت دیگر لواحقین گزر رہے ہیں کوئی سمجھ نہیں سکتا انہوں نے کہاکہ ہم بھی ریاست کے شہری ہیں اور قانون کو مانتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ ہمارے پیاروں کو جبر ی لاپتہ کیا جائے اس حوالے سے کبھی خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور ہر طرح کا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔ ہمیں کافی مرتبہ ڈرایا دھمکایا گیا لیکن ہم ڈرنے والے نہیں اپنے پیاروں کی بازیابی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
انھوں نے کہاکہ 2014ء کو اپنے لاپتہ پیاروں کے بازیابی کیلئے کوئٹہ سے لیکر اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور آج دن تک احتجاج کررہے ہیں، کوئٹہ و کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے کیلئے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی صورتحال میں بھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھے رہے ہیں لیکن قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا گیا اور نہ قانون توڑا بلکہ پرامن احتجاج جاری رکھا گیا، بلوچستان میں جب حکمران اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو وہ مسنگ پرسن کے حوالے سے لب کشائی کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اقتدار میں آنے کے بعد وہ گونگے بہرے ہو کر اپنی آنکھیں بند کردیتے ہیں، جیسے انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہاکہ حکومت اور عدالت کی جانب سے بلوچستان کے لاپتہ افراد کے حوالے سے کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں لیکن ان کمیٹیوں کی کارکردگی دکھائی نہیں دے رہا، وہ محض برائے نام کی کمیٹیاں ہیں اور بلوچستان کے لوگ آج بھی لاپتہ کئے جارہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب کے سامنے مسنگ پرسن کے لواحقین پر کراچی پولیس کی جانب سے تشدد کیا گیا اور انہیں زبردستی احتجاج ختم کرنے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن مسنگ پرسن کے لواحقین کسی صورت اپنی احتجاج ختم نہیں کرینگے جب تب تک لاپتہ تمام نوجوانوں کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا اور انہیں بازیاب نہیں کرایا جاتا اس وقت تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.