تفصیلات کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے طالب علم دودا بلوچ اور غمشاد غنی کی کراچی میں ان کے گھر سے جبری گمشدگی کے خلاف تربت میں اہل خانہ اور عوام کی جانب سے تربت پریس کلب روڈ سے ایک ریلی نکالی گئی، ریلی مین روڈ سے ہوکر فدا شہید چوک پر پہنچی جہاں دھرنا دیا گیا اور دھرنا کے سبب ٹریفک معطل رہا- دھرنا سے دودا بلوچ کے بھائی بابر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بھائی بیگناہ ہے اگر اس پر کسی قسم کا کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے- دھرنا سے لاپتہ دودا بلوچ کی ہمشیرہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دودا بلوچ کے جگر کا آپریشن ابھی حال ہی میں ہوا ہے اور وہ مکمل طور پرصحتیاب بھی نہیں ہو پایا ہے لہٰذا اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بازیاب کیا جائے، احتجاجی دھرنا سے لاپتہ غمشاد غنی کے والد عبدالغنی بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معصوم بچوں کو بازیاب کرایا جائے- انہوں نے کہا آج دیگر قومیت سے تعلق رکھنے والے طلبا ہمارے بچوں کی بازیابی کے لئے احتجاجوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں کیونکہ ہمارے بچے بے قصور ہیں بلکہ وہ اپنے ڈپارٹمنٹ کے پوزیشن یافتہ اور ٹوپر ہیں، لہٰذا انہیں فوری طور بازیاب کیا جائے-
دھرنا میں کراچی سے لاپتہ کئے گئے دشت نگور کی رہائشی نوربخش ، آپسرسے لاپتہ کئے گئے حفیظ بلوچ کے لواحقین نے بھی شرکت کی اور دھرنا سے خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ غربت کے ہاتھوں لاچار ہوکر نوربخش خلیجی ملک گئے اور محنت مزدوری کرتے رہے جب چھٹیوں میں کراچی رئیس گوٹھ آئے انہیں ایک ماہ کا عرصہ ہوا تھا کہ انہیں اغوا کیا گیا، دھرنا میں لاپتہ غمشاد غنی کی والدہ نے اظہار خیال کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں گرمی نے بدحال کردیا تھا جبکہ اکلوتے بیٹے کی گمشدگی کے غم نے ان کی زبان سے الفاظ چھین لئے تھے، ریلی کے شرکا نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے نعرے بازی کی گئی، ریلی کے شرکا نے بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ کئے گئے سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی بازیابی کے لئے پلے کارڈ اٹھارکھے تھے۔ ریلی میں خواتین اور طالبات کی ایک کثیرتعداد نے شرکت کی-