بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں پرائمری کی سطح پرفوری طور پر اسکولوں میں بلوچی ،براہوی،پشتو زبان میں تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کے ساتھ ساتھ تمام پرائمری سکولوں میں مادری زبان پڑھانے کیلئے اساتذہ کی آسامیاں تخلیق کی جائیں۔آل پارٹیزکیچ اور ماتی زبانانی دیمروئی مجلس کے رہنماوں کا مشترکہ اجلاس۔
تمام رہنماوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں سرکاری،نجی تعلیمی اداروں میں مادری زبانوں کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔شرکاءنے فیصلہ کیا کہ گوادر،پنجگور،کوئٹہ اور بلوچستان بھر کے ادبا،تمام سیاسی رہنماوں سے رابطے کئے جائیں گے اور ہر ضلع میں عوام کو اپنے اس حق کیلئے آگے آنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرمالک بلوچ کی حکومت نے ایک بل پاس کی تھی جس کے بعد مادری زبانوں میں پڑھانے کا سلسلہ شروع ہواتھا لیکن موجودہ حکومت کے آتے ہی یہ سلسلہ بند کیا گیاہے۔اجلاس میںپرزور مطالبہکیا گیا کہ اس سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق آل پارٹیز کیچ کا اجلاس زیر صدارت قائم مقام کنوینر ظریف زدگ بلوچ بی این پی عوامی کے الیکشن سیل آفس اورسیز میں منعقد ہوا،
اجلاس میں نیشنل پارٹی کے ضلعی رہنما طارق بابل، انور اسلم اور حفیظ بلوچ، بی این پی عوامی کے ڈپٹی آرگنائزر احد الٰہی، سابق ضلعی صدر ظریف زدگ بلوچ، پی این پی عوامی کے مرکزی رہنما خان محمد خان گچکی، پی پی پی کے صوبائی رہنما نواب شمبے زئی اور ضلعی صدر حاجی قدیر بلوچ، انجمن تاجران کیچ کے حاجی کریم بخش، جمال مری، مرکزی جمعیت اہلحدیث کیچ کے رہنما یلان زعمرانی، جے یو آئی کے ضلعی رہنما عبدالحفیظ مینگل اور تحصیل عہدیدار عبدالقدیر ، بی این پی کے رہنما واجہ سید جان گچکی اور منظور رئیس، کیچ سول سوسائٹی کے نمائندہ عومر ہوت اور تربت سول سوسائٹی کے ڈپٹی کنوینر جمیل عمر نے شرکت کیا۔
اجلاس میں “ماتی زبانانی دیمروئی مجلس” کے آرگنائزر پروفیسرڈاکٹر غفور شاد ، واجہ بجار بلوچ ، الطاف بلوچ ، قدیر لقمان ، عبید شاد و دیگر نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
اجلاس میں بلوچی زبان و ادب کے ایجنڈے پر سیر حاصل بحث و مباحثہ ہوا، اجلاس میں ڈاکٹر غفور شاد نے زبان کی اہمیت و ترقی اور زبان کو تعلیمی اداروں میں رائج کرنے میں سیاسی جماعتوں کے کردار و تعاون کے متعلق بریفننگ دیا۔
اجلاس میں کہا گیا کہ بحثیت بلوچ یہ ھم سب کی قومی ذمہ داری ہے کہ اپنے زبان کی خدمت کریں کیونکہ زبان ہی قوم کی پہچان ہوتی ہے اگر کسی قوم کا مادری زبان کمزور ہو کر تعلیمی اداروں ، کاروباری مراکز اور زندگی کے دیگر شعبوں میں استعمال کم ہوں تو یقیناً بقول مکائل کورس کے آنے والے صدیوں میں اسے خطرات لاحق ہونگی اس لیئے تمام مکتب فکر کے لوگ اپنی اپنی گنجائش کے مطابق زبان کی پرچار اور اسے رائج کرانے کے لیے اپنی کردار ادا کریں ، انجمن تاجران کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ بازار و مارکیٹ کے تمام دکانوں کی سائن بورڈز مادری زبان میں لکھوائیں اور سیاسی قیادت اپنی پارٹی پروگراموں کے پینا فلکس و بینرز اور لیڈران اسٹیج پر بلوچی میں تقریر کریں تب جاکر زبان کو اہمیت حاصل ہوگی۔
مزید کہا گیا کہ 1970 نیپ کی حکومت میں جب گل خان نصیر وزیر تعلیم تھے تو بلوچی، براہوئی اور پشتو زبان کو سرکاری و غیر سرکاری اور دینی مدرسے میں پڑھائے جانے کی کوشش ہوئی لیکن نیپ کی حکومت جلد ختم ہوئی ، 1990 کی دہائی میں جب نواب اکبر خان بگٹی وزیر اعلیٰ بلوچستان تھے توانہوں نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بلوچی سمیت دیگر قومی زبانیں پڑھائے جائیں لیکن چند مدت بعد پڑھانے کا سلسلہ بند ہوا اور 2014 میں جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلی تھے توبلوچی پشتواوربراھویی پڑھانے کیلئے بل منظور کرائی گئی کہ بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں بلوچی ، پشتو اور براہوئی زبان کو بطور اضافی کورس پڑھایا جائے۔اور تین کلاسوں تک کتابیں چھپ گئیں اور پڑھانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا لیکن 2018 کے بعد پھر سے غیر اعلانیہ طور پر تعلیمی اداروں میں مادری زبانیں پڑھانا بند ہوا۔ اب یہ سیاسی جماعتوں کے لوکل لیڈر شپ کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے لیڈران کو بتائیں کہ اسمبلی فلور میں 2014 کی منظور شدہ بل پر عملدرآمد کرائیں تاکہ ہماری زبان کے تحفظ ہواور آنے والے نسلوں تک زبان تواناصورت میں پہنچ پائے،
آخر میں کہا گیا کہ آل پارٹیز کیچ زبان و ادب اور لبزانکی معاملات کو قومی ایشوز سمجھ کر مکمل حمایت اور ساتھ دینے کی یقین دہانی کرتی ہے اور حکومت وقت سے اپیل کرتی ہے کہ جہاں بلوچی ڈیپارٹمنٹ کے خالی آسامیاں ہیں انہیں اشتہار کرکے نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے تعلیمی اداروں میں مادری زبان کے پڑھانے کیلئے پرائمری سطح پر پوسٹ کریں
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.