کوئٹہ:
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچی ٹوپی ،پگڑی پہننے یا داڑھی رکھنے والا اور بلوچی زبان بولنے والا دہشتگرد نہیں بلکہ دہشت زدہ ہیں 70سالوں سے جاری اس دہشت سے بلوچستان کی عوام کو بچانے کی ضرورت ہے ،ناانصافیوں سے پیدا ہونے والی نفرتوں سے خونی رشتیں ٹوٹ جاتے ہیں حالانکہ ہم تو آئینی رشتہ جو بزور شمشیر بنایا گیا ہے۔
میں بندھے ہوئے ہیں خوف میں قومی جدوجہد کو چھوڑا نہیں جاسکتا، دوسروں کو اپنے گھر میں مداخلت کا موقع نہیں دیناچاہیے پہلے اپنے گھر کو سنوارنے کی ضرورت ہے ،قومی میڈیا کی جانب سے بلوچستان کا بلیک آئوٹ ہے ،حقیقی سیاسی جمہوری جماعتوں اور پاکستانی عوام کو ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ)پی ڈی ایم (کی تحریک کو کامیاب کرانا ہوگی ۔
تو پھر ملک میں حقیقی جمہوریت کی کرن نظر آئیگی بصورت دیگر ریٹریٹ کیا تو پھر انہیں بیگار میں کام کرنا پڑے گا.بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لواحقین ،تاجر ،زمیندار ،سیاسی جماعتوں نے صوبے کے مسائل کی ذمہ دار قوم پرستوں کو ٹھہرایا تو ہمیں قطار میں کھڑے کرکے گولی مار دی جائیں اور اگر کوئی اور ذمہ دار ہیں تو کم از کم انہیں عدالت کے کٹہرے میں تو کھڑا کیاجائے ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سائوتھ اشیاء پریس کو دئیے گئے انٹرویو میں کیا۔ سردار اختر جان مینگل نے کہاکہ کریمہ بلوچ کی اچانک موت کے واقعہ سے شکوک وشبہات ہیں مشرف کی انٹرویو کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے ذمہ داران کی بھی ٹویٹ کئے تھے کہ ایک مائنس اور باقی کی باری ہے ،کینڈین حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی مکمل تحقیقات کرکے رپورٹ دیں میں باہر رہاہوں بلکہ میرے والد سردار عطاء اللہ مینگل نے 13 سال جلا وطنی کی زندگی گزاری ہے۔
خوف کے باعث اپنی جدوجہد نہیں چھوڑ سکتے ،انہوں نے کہا کہ اپنے گھر کو سنوانے کی ضرورت ہے دوسروں کو اپنے گھر میں مداخلت کرنے کا کیوں موقع دیاجاتاہے ،میں سال پہلے لاہور میں دوست سے دریافت کیاکہ یہ واہگہ بارڈر کتنا دور ہیں تو اس نے کہاکہ15سے20کلو میٹر ہے تو میں نے کہاکہ اتنا نزدیک ہیں اگر کوئی وہاں سے پتھر پھینکیں تو یہاں لاہوریوں کے سرپر لگے گا۔
تو انہوں نے کہا بلکل تو ایجنٹ یہاں نہیں آتے پھر یہ علاقہ کراس کرکے بلوچستان میں کیسے ایجنٹ پیدا ہوجاتے ہیں ،ایسے حالات کاادراک کرکے ختم کرنے کی ضرورت ہے جہاں کے لوگ دوسروں کی طرف دیکھیں پنجاب کے لوگ مطمئن تو وہ علیحدگی کی تحریک کیوں نہیں چلا رہے ؟ ناانصافیوں سے ہمیشہ بدگمانیوں نے جنم لیاہے بدگمانیوں نے ناراضگیوں کو جنم دیاہے۔ اور ناراضگیاں نفرتوں کو جنم دیتی ہے یہ بلوچستان کا مدہ ہے اور ان ناانصافیوں کااقرار ہر حکمران نے کیاہے بدگمانیوں سے نفرتیں پیدا ہوجائیں تو خون کے رشتوں میں بنددو بھائیوں میں نفرت سے گھر ٹوٹ جاتے ہیں ،والد اور بچوں کے درمیان اگر ناانصافیوں کی بنیاد پر نفرتیں پیدا ہوجاتی ہیں تو وہ خونی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ،ہمارا خونی رشتہ نہیں بلکہ آئینی رشتہ بنایاگیاہے۔
وہ بھی بزور شمشیر لیکن اس آئین کو وہ خود بھی نہیں مانتے اور نہ ہی احترام کرتے ہیں ہم تو پھر بھی اس آئین کااحترام تو کرتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ میڈیاکی جانب سے بلوچستان سے بلیک آئوٹ ہے لیکن قومی اسمبلی میں شروع میں کوریج دی گئی لیکن صوبے کی معاملات پر بات کرنے پر میری آواز میوٹ کی جاتی تھی اب تو نوبت اس حدتک آئی ہے کہ میڈیا کومیری شکل بھی پسند نہیں اور چہرے کا بھی بلیک آئوٹ ہیں۔
پہلے صرف پی ٹی وی تھا اب تو پاکستان میں تمام چینلز پی ٹی وی بن گئے ہیں جس میں قصور ہمارے سیاسی جمہوری جماعتوں کے رہنمائوں کا ہے جنہوں نے پیمرا رولز کے تحت چینلز کو پابند کیااور آج خود ان کی سزا بھگت رہے ہیں انہوں نے کہاکہ لاہور جلسے میں میری تقریر لائیو چلانے پر ایک ٹی وی چینل کو شوکاز نوٹس آیاتھاکہ اخترمینگل اور مریم نواز کی تقریر لائیو کیوں چلائی گئی ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جائے کہ بلوچستان میں میڈیا کتنی آزاد ہے ،بدقسمتی سے بلوچستان میں سوشل میڈیا بھی محدود ہے کئی اضلاع میں 4 جی بند ہیں جبکہ بڑے شہر کوئٹہ ،خضدار میں 3 جی کام کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود جو آگاہی تھوڑی بہت سوشل میڈیا کے ذریعے ملی ہے بلوچستان کا معاملہ لوگوں کو سمجھ آرہاہے کچھ لوگوں کا مائنڈ سیٹ کہ بلوچی ٹوپی ،پگڑی پہننے والا اور بلوچی زبان بولنے والا ،داڑھی رکھنے والا دہشتگرد تھا۔
یہ بین الاقوامی سطح پر ایک مائنڈ سیٹ تھا سماجی کارکن ،اینکرپرسنز ہمارے شکلوں کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ دہشتگرد ہیں ہم دہشتگرد نہیں دہشت زدہ ہیں،ہم اس ملک کے 70سالہ دہشت زدہ ہیں ہمیں اس دہشت سے بچایاجائے ،انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین اور ورثاء تقریبا11ََسال سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کررہے ہیں جہاں مقامی ،قومی اور انٹرنیشنل میڈیا بھی موجود ہیں۔
ان لوگوں نے کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ اور پھر کراچی سے اسلام آباد مارچ کیا جس کو قومی یا بین الاقوامی میڈیا نے کوئی کوریج نہیں دی ،قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو کوریج کیلئے این او سی لینی پڑتی ہے جو بمشکل سے ملتی ہیں جب ہم حکومت کے اتحادی تھے تو ہم نے کمیٹی بنائی کہ وہ آئیں اور بلوچستان کا دورہ کریں اور اپنے ساتھ میڈیا کو لائیں اور لوگوں کی بات سنیں ،لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملیں زمیندار، تاجر ،سیاسی جماعتوں سے مسائل دریافت کریں۔
اگر مسائل کے ذمہ دار قوم پرستوں کو گردانا جاتا ہی تو ہمیں ایک قطار میں کھڑا کرکے شوٹ کیا جائے لیکن اگر کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرایاجاتاہے تو کم از کم انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے لیکن اسپیکر کو اس کمیٹی کو نوٹیفائی کرنے کیلئے ایک سال لگا لیکن آج تک اس کمیٹی کاایک میٹنگ نہیں ہوئی ،انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتیں اور یہاں کی عوام اگر ملک میں جمہوریت کی مضبوطی چاہتے ہیں تو پی ڈی ایم کی تحریک کو کامیاب کرانا ہوگا اور یہ ذمہ داری پی ڈی ایم میں شامل ان جماعتوں کی ہے جو اقتدار میں رہی ہیں اور رہیں گی اگر وہ مستقبل کا اپنا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیناچاہتے ہیں تو انہیں قربانیاں دینی پڑیںگی۔
میں نے ان سے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ جدوجہد جمہوری اداروں کی بحالی ،آئین کی بحالی کیلئے آخری سٹرگل ہوگی اگر کامیاب ہوئے تو ملک میں حقیقتاََ جمہوریت کی کرن نظرآئے گی لیکن کسی نے ایک نے ریٹریٹ کیا تو پھر ان سے بیگار میں کام لیا جائے گا۔
Source: Daily Azadi Quetta