دمشق :
شام کے جنوبی حصے میں حکومت مخالف مظاہرے دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئے ہیں، مظاہرین نے اقلیتی دروز برادری کے رنگین پرچم لہرائے، صدر بشار الاسد کی جماعت کے کئی دفاتر پر دھاوا بول دیا۔
امریکہ کی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق شام میں ہونے والے مظاہروں کا آغاز جنگ زدہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ہوا تھا اور مظاہرین نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے مطالبے پر توجہ مرکوز کر لی۔
گذشتہ ہفتے سے جاری مظاہروں کا مرکز حکومت کے زیر کنٹرول صوبے سویدائی میں ہے جہاں پر بسنے والے شام میں طویل عرصہ سے جاری تنازع کے دوران زیادہ تر سائیڈ لائن پر ہی رہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس علاقے میں ایسے مظاہروں کے منظر کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، مظاہرین نے بشار اسد کی بعث پارٹی کے اراکین کو ان کے کچھ دفاتر سے باہر نکال دیا۔
مظاہرین نے بعث پارٹی کے دفاتر کے دروازے بند کر کے دیواروں پر سپرے پینٹ سے حکومت مخالف نعرے لکھ دئیے۔
تازہ ترین مظاہروں نے اسد حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ اس سے موجودہ حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
یہ مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب حکومتی فورسز نے ملک کے بیشتر حصوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا ہے اور شام نے خطے کی بیشتر حکومتوں کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے ہیں۔