پیر کے روز چینی نائب وزیر خارجہ ژی فینگ نے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ چین اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ مسائل پر کام کرنا چاہتا ہے۔ اسی بیان کے جواب میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے اپنا یہ ردعمل ظاہر کیا۔
جنوری میں، جب سے جو بائیڈن نے صدارت کا عہدہ سنبھالا ہے، اس کے بعد سے امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور چین کی علاقائی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر اپنی تنقید بدستور جاری رکھی ہے، جب کہ چین کا موقف رہا ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے عروج کو دبانے کی امریکی کوششوں کے تناظر میں امریکہ کو چین سے تعاون کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ شرمین نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
شرمین نے چین کے شہر تیان جن میں چینی نائب وزیر خارجہ ژی فینگ اور وزیر خارجہ وانگ ای سے ملاقاتوں کے بعد اپنے فونک انٹرویو میں کہا کہ بڑی طاقتوں کی یہ عالمی ذمّہ داری ہوتی ہے کہ وہ مخصوص اختلافات سے بالا ہو کر دنیا کے بارے میں کچھ کریں۔
پیر کے روز چین میں ہونے والی اس ملاقات میں چین نے امریکہ پر الزام لگایا کہ اس کی وجہ سے باہمی تعلقات گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں اور امریکہ سے کہا ہے وہ، بقول ان کے، اپنے انتہائی غلط انداز فکر اور خطرناک پالیسیوں کو تبدیل کرے۔ ژی نے شرمین سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ بائیڈن انتظامیہ چین کی ترقی کو دبانے اور محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین چاہتا ہے کہ اختلاف بالائے طاق رکھ کر مشترکہ معاملات پر توجہ دی جائے۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ آب و ہوا تبدیلی جیسے اہم عالمی موضوعات پر چین کے ساتھ تعاون کرے گا، مگر انسانی حقوق جیسے مسئلے پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد مخصوص مسائل پر گفت و شنید نہیں تھا، بلکہ بات چیت کے دروازے کھلے رکھنا ہے، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان مسابقت کی فضا چپقلش میں بدلنے نہ پائے۔