کابل:
طالبان نے اپنی حکمرانی کے خلاف بڑھتے ہوئے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے- ایسے مظاہروں پر پابندی ہوگی جنھیں سرکاری منظوری حاصل نہیں ہے اسکے ساتھ ساتھ نعرے بازی پر بھی پاپندی ہوگی-
سخت گیر اسلامسٹ گروپ کے نئے وزارت داخلہ جس کی قیادت سراج الدین حقانی کر رہے ہیں اور جو امریکہ کو دہشت گردی کے الزامات میں مطلوب بھی ہیں، کی طرف سے جاری کردہ انکے پہلے آفیشل حکم نامے میں انہوں نے طالبان مخالفین کو خبردار کیا ہے کہ وہ کسی بھی احتجاج سے پہلے حکومت سے اجازت حاصل کریں یا پھر سخت قانونی نتائج کا سامنا کریں۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغان عوام بلخصوص افغان خواتین طالبان کی حکمرانی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ان مظاہروں کے دوران ریاست پاکستان اور اسکی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے- مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ ریاست پاکستان اور اسکی خفیہ ایجنسی کی ہی مرہون منت ہے کہ آج طالبان کی حکمرانی افغان عوام پر مسلط ہو پائی ہے-
افغانستان کے دارلحکومت کابل اور دیگر شہروں میں جاری مظاہروں پر طالبان کی جانب سے تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں-
اسی طرح نئی طالبان حکومت کے تحت افغان خواتین بشمول ملک کی خواتین کرکٹ ٹیم پر کھیل کھیلنے پر پابندی عائد ہوگی-
طالبان کے ثقافتی کمیشن کے نائب سربراہ احمد اللہ واثق نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ خواتین کا کھیل کھیلنا نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی ضروری- انکے مطابق کرکٹ کے کھیل میں خواتین کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں ان کا چہرہ اور جسم ڈھانپے ہوئے نہ ہوں اور اسلام عورتوں کو اس طرح بے نقاب ہوئے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔
طالبان کی نئی عبوری حکومت نے باضابطہ طور پر بدھ سے کام شروع کر دیا ہے- طالبان کا ایک جامع حکومت بنانے کے ہونے سابقہ وعدوں کے باوجود اس حکومت کی تمام کلیدی عہدوں پر سخت گیر مذہبی شخصیات شامل ہیں جو کہ پشتوں ہیں اور اس حکومت میں نہ کوئی خاتون شامل ہے اور نہ ہی اس میں افغانستان میں آباد دیگر اقوام کی نمائندگی شامل ہے-