چین نے امریکہ کو بتا دیا ہے کہ وہ تائیوان کے مسئلے پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں اور اس معاملے میں وہ جنگ کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے گا۔ ادھر امریکہ نے بیجنگ کے ‘اشتعال انگیز’ رویے پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے گیارہ مئی ہفتے کے روز ایک بار پھر سے جزیرہ تائیوان کے آس پاس چینی “اشتعال انگیزی اور غیر مستحکم کرنے والی عسکری سرگرمیوں” پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ امریکہ ایشیا بحرالکاہل خطے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان اپنے چینی ہم منصب سے اس ملاقات کے بعد آیا ہے، جس میں چین نے امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ بیجنگ جزیرے تائیوان کی آزادی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا اور اس کے لیے وہ، “جنگ شروع کرنے کے لیے بھی تیار ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔”
خود مختار جزیرہ تائیوان کے حوالے سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ چین تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر ضرورت پڑی، تو طاقت کے زور پر بھی اسے ملک میں ضم کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں بیجنگ نے جزیرہ تائیوان کے آس پاس اپنے جنگی طیاروں کی پروازوں میں اضافہ کیا ہے۔ ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی گزشتہ ماہ کئی دہائیوں پر محیط امریکی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر چین نے حملہ کیا تو واشنگٹن عسکری سطح پر تائیوان کا دفاع کرے گا۔