بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں انسپکٹر جنرل بلوچستان پولیس کے دفتر کے سامنے، معروف پبلک مارکیٹ سے پارٹی کے سینئر اقلیتی رہنما اور ممبر صوبائی اسمبلی مسٹر ٹائٹس جانسن کی گاڑی کی گمشدگی انتظامیہ اور صوبائی وزیر داخلہ کی ناقص کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
حالانکہ کوئٹہ کو سیف سٹی بنانے اور قدم قدم پر چیک پوسٹوں کے قیام سے اربوں روپے عوام کے ٹیکسوں سے خرچ کئے جا رہے ہیں جس میں پولیس، ایف سی اور دیگر ایجنسیز کے ہزاروں کارندوں کی تنخواہیں بھی شامل ہیں مگر نہ کوئی مجرم پکڑے جاتے ہیں اور نا ہی چوری اور وارداتوں میں کمی ہو رہی ہے۔
یہ غفلت اور لاپرواہی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آئے دن شہر سے گاڑیوں کی چوری کا معاملہ ایک سنگین صورتحال اختیار کر رہا ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کے دارالحکومت میں تمام محکموں کے سربراہان نے اپنے اپنے دفاتر کے گرد مضبوط حصار تعمیر کر کے قلعہ بند ہوگئے ہیں اور خوف کے مارے اپنے قلعوں کے سامنے بیریئرز لگا کر ٹریفک کو بھی گزرنے نہیں دیتے لیکن عوام کی جان و مال کے تحفظ کی پروا کسی کو نہیں۔
مرکزی بیان میں انتظامیہ کے اعلی حکام اور صوبائی وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹائٹس جانسن کی گاڑی کو فوراً برآمد کرکے مجرموں کو گرفتار کیا جائے اور انڈسٹیریل تھانے میں درج ایف آئی میں نامزد ملزمان کو بھی قانون کی گرفت میں لیے جائیں۔
آئے دن بڑھتے ہوئے چوری چکاری، رشوت خوری، بیروزگاری اور ناانصافیوں نے عوام کے اندر جو غم و غصہ اور اشتعال بھر دیا ہے وہ کسی دن لاوا بن کر پھٹ سکتا ہے اس لئے صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اگر وہ اب بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے تو کل کو حالات کسی کے قابو میں نہیں رہے گا۔