کراچی:
بک ریڈرز کلب لیاری میں بزرگ سیاستدان سردار عطااللہ مینگل کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں بک ریڈرز کے سرپرست اعلیٰ اور سینیئر صحافی لطیف بلوچ،بلوچ اتحاد تحریک کے چیئرمین عابد بروہی، عبدالمجید بلوچ ، لالہ فقیر محمد،عبدالواحد ایڈووکیٹ ، رمضان بلوچ،عبدالوہاب بلوچ، اختر بہادر،عیسیٰ بلوچ،خدابخش کے بی ،اورنگزیب بلوچ، اصغرلال سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے سردار عطاللہ مینگل کی سیاسی جدوجہد سمیت ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
سینئر صحافی لطیف بلوچ نے کہا کہ عطااللہ مینگل صاحب سے میری پہلی ملاقات حیدر آباد جیل میں ہوئی۔سردار عطااللہ مینگل جب وزیر اعلی بنے تو مجھے انہوں نے اپنے پریس سییکریٹری کی آفر کی جو میں نے قبول کی۔ ان کے وزارت اعلی کے دوران لالہ لعل بخش رند کو بلوچستان آرٹس کونسل کا سربراہ بنایا گیا۔ عطااللہ مینگل کی وزارت اعلی کے دور میں کوئٹہ بلوچوں کا مرکز رہا جہاں کراچی، پنجاب، اور دیگر علاقوں کے لوگ جوق در جوق کوئٹہ آتے رہے۔
وہاب بلوچ نے سردار عطااللہ مینگل کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سردار صاحب نے اگرچہ پارلیمانی سیاست کی لیکن وہ مقتدرہ قوتوں کی چال بازی سے واقف تھے جب نواز شریف نے انکو صدر بننے کی پیش کش کی تو انہوں نے بغیر لپٹی نواز شریف سے کہا کہ آپکو پتہ ہے اختیارات کس کے پاس ہے؟ وہ اپنے بات پر ڈٹے رہنے والے شخصیت تھے۔
شرکا نے کہا کہ عطااللہ مینگل ایک بے باک اور نڈر سیاسی رہنما تھے۔شدید مشکل حالات میں بھی اس کے ماتھے پرشکن نہیں دیکھی بلکہ وہ پراعتماد تھے۔ شرکا نے کہا کہ عطااللہ مینگل نے ہمیشہ بلوچ قوم کی ترقی اور استحکام کےلیے جدوجہدکی لیکن پونم کے پلیٹ فارم سے انہوں نے دیگر مظلوم قومیتوں کے لیے بھی آواز بلندکی۔ شرکا نے کہا کہ ستر کی دہائی میں نوجوانوں کو جس لیڈر نے نوجوانوں کو متاثر و متحرک کیا وہ سردار عطااللہ مینگل تھے انہوں نے لیاری ککری گراونڈ میں جو تقریر کی وہ آج بھی ہمارے ذہن میں گونج رہی ہے۔ شرکا نے کہا کہ عطااللہ مینگل ،نواب خیربخش مری،نواب اکبربگٹی اور غوث بخش بزنجو جیسے عظیم قائدین کی جدوجہد آج بھی نوجوانون کے لیے مشعل راہ ہے