کوئٹہ:
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں سوراب پبلک لائبریری کی بندش اور گرلز کالج کی تعمیر کو اٹھارہ سال کی تعمیراتی مراحل طے کرنے کے باوجود تاحال مکمل نہ ہونے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے شعبے میں ایمرجنسی جیسے دعوے کرنے والی حکومتیں تاحال اداروں کو فعال بنانے اور نئے تعلیمی اداروں کے قیام میں ناکام رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ گزشتہ کئی عرصے سے بلوچستان کے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت مختلف علاقہ جات میں نئے لائبریریوں کے قیام اور تعمیر شدہ لائبریریوں کو فعال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوراب کے طالبعلموں نے بھی اسی تسلسل کو اپناتے ہوئے دو سال قبل پبلک لائبریری کو فعال بنانے کی انتھک کوشش کی اور لائبریری کو فعال بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ طالبعلموں کی جانب سے لائبریری کو فعال بنانے کے باوجود ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث سوراب پبلک لائبریری پچھلے کئی عرصے سے بندش کا شکار ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں خواندگی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر سال حکومتیں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتی ہیں اور تعلیم کے شعبے میں بہتری کےلیے نئی پالیساں مرتب کرتی ہیں۔ اِن دعووں کے برعکس بلوچستان میں قائم شدہ تعلیمی اداروں کی حالت نہایت ہی مخدوش ہے اور سالوں سے زیر تعمیر تعلیمی ادارے تاحال قائم نہ کیے جا سکے۔ جسکی واضح مثال سوراب گرلز کالج کا اٹھارہ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال قائم نہ ہونا ہے۔ جہاں بلوچستان میں طالبات کو تعلیم کے شعبے میں کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں وہیں اس طرح کے عدم توجہی کے باعث ہزاروں طالبات کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ سوراب میں حکومتی عدم توجہی کے باعث ہزاروں طلبا و طالبات کی تعلیمی کیرئیر میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ ہم حکومت وقت اور متعلقہ اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ سوراب پبلک لائبریری کو فعال کیا جائے تاکہ طالبعلم ایک پرسکون ماحول میں اپنی علمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ گرلز کالج کی تعمیر میں طوالت کی انکوائری کی جائے اور اس عمل میں تیزی لانے کےلیے عملی بنیادوں پر کوششیں کی جائیں۔