:لندن
تربت میں نجی اسکول کا نوجوان استاد توہین رسالت کے الزام پرقتل،مفتیان اسلام کے جرگے میں جاتے ہوئے مدرسے کے قریب مسلح افرادکی اسکول اساتذہ کے وفد پرفائرنگ ،کئی استاد بال بال بچ گئے،قتل کے واقعے سے سماجی حلقوں میں تشویش کی لہڑدوڑگئی۔
تفصیلات کے مطابق ہفتہ کے روزفدا شہید قبرستان ملک آباد کے قریب تربت میں ایک نجی اسکول کے نوجوان استاد عبدالرؤف ولد برکت ساکن جت نگورکو توہین رسالت کے مبینہ الزام کے بعد قتل کردیا گیا ۔
عبدالرؤف نامی استاد پر ان کے طلبہ نے کچھ روز قبل دوران کلاس توہین آمیز قلمات ادا کرنے کے الزام لگائے تھے۔ان الزامات کی بظاہر تحقیق اور عبدالرؤف کی ایمان کا جائزہ لینے کے لیے آج ہفتہ کے دن ملک آباد تربت میں واقع ایک مدرسہ میں مذہبی جرگہ بیٹھا جہاں مزکورہ استاد کو طلب کیا گیا۔
اساتذہ کے وفد میں شامل ایک استاد کے مطابق ہفتے کو 11 بجے کے قریب اسکول کا وفد اسکول کے ڈائریکٹرسدھیرلقمان اورمالک نثاردلمراد کے ہمراہ عبدالرؤف اوردیگراساتزہ کے ساتھ اس جرگہ کے سامنے پیش ہوکر اپنے ایمان کی گواہی دینے جارہے تھے،مدرسے کے قریب راستے میں چھ مسلح افراد نے اساتذہ کے وفد پرفائرنگ کی لیکن وہ بال بال بچ گئے اورکچھ استاد اپنی موٹرسائیکلیں چھوڑکرقریب ہی محفوظ پناہ گاہ تلاش کرتے رہے اس دوران 2مسلح موٹرسائیکل سوار داڑھی رکھے نوجوانوں نے عبدالرؤف پرفائرنگ کی جسے پیٹھ پربائیں جانب گولی لگی اوروہ گرگیا اس کے بعد دونوں مسلح افراد نے اسے قریب سے کئی گولیاں ماردیں ،مزکورہ ذریعے کے مطابق دونوں حملہ آورحواس باختہ اورسہمے ہوئے تھے،اس کے بعد وہ چھ افراد فرارہوگئے،جبکہ عبدالرؤف کوانہی اساتذہ نے اسپتال پہنچایا لیکن وہ راستے میں دم توڑچکاتھا ۔
جبکہ کیچ کے علمااورمفتیان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کیا گیا ہے کہ آج بروز ہفتہ پانچ اگست کو مدرسہ اشاعت التوحید والسنہ ملک آباد میں کیچ کے مفتیان کرام اور علماء عظام مسئلہ کے حل کے لیئے خیر خواہانہ اور مصلحانہ نیت سے جمع تھے،اور دوسرے فریق کی آمد کے منتظر تھے،کہ ساڑھے گیارہ بجے کے قریب ہمیں اطلاع ملی کہ عبدالروؤف کو موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا ہے۔ جس پر جمع ہونے والے کیچ کے علماء کرام اس ناگہانی واقعے پر حیران و ششدر رہ گئے، فورا پولیس اور انتظامیہ سے رابطہ کرکے ان کو اس واقعہ سے متعلق اطلاع دی گئی ۔
بیان کے مطابق اس سے قبل تربت میں توہین کے دوواقعات علماء کرام نے جرگہ کے ذریعے اسی کوشک ملک آباد میں ان کا پرامن طور پر تصفیہ کردیا تھا۔ بیان کے مطابق علماء کرام کی ہر وقت کوشش رہی ہے کہ علاقے کو افرا تفری سے بچایا جائے ۔ اور ایسے واقعات کے دور رس اور مضر نتائج سے معاشرے کو دور رکھا جائے۔
جبکہ علمی اوردانشورانہ حلقوں میں اس واقعے کی تحقیق اورفیصلہ سے قبل مسلح افراد کاعدالت اورمنصف بن جانے کوانتہائی تشویش کی نظرسےدیکھا جارہاہے۔
بلوچ علمی حلقوں کے مطابق اس واقعے میں مزکورہ استاد کا ذگری بلوچ ہوناہی اسے بیدردی اورغلطی کے ثابت سے ہونے قبل سرراہ قتل کرانے میں اہم عنصرہے، ریاستی اداروں کی جانب سے ذگری بلوچ زیادہ قوم پرست بلوچ کے طورپرجانے جاتے ہیں ان کے خلاف تادیبی کارروائی ماضی قریب میں ریکارڈ پرموجود ہیں۔
علمی حلقوں کے مطابق اس قتل سے جہاں کئی سارے سوالات جڑے ہیں اہم سوال یہ ہے کہ ایک غیررجسٹرڈ جرگہ کس اختیار کے تحت لوگوں کو طلب کرکے ان کے ایمان کی تحقیق کرسکتا ہے جبکہ انتظامیہ پولیس لیویز اور قاضی کورٹ و شرعی عدالتیں وغیرہ موجود ہیں،دوسری اہم بات یہ ہے کہ کم عمر طلبہ کیسے مذہبی معاملات کی حساسیت میں جاکر اپنے ہی ایک استاد پر توہین کا الزام لگاسکتے ہیں،ان کے علم اور باریک مذہبی معاملات میں کیسے سَند کا درجہ دیاجاسکتا ہے،عبدالرؤف کے قتل کا مقدمہ کس کے خلاف درج کیا جائے،
انہوں نے کہا سنجیدہ علما کرام اس حساس معاملے پر کردارادا کریں تاکہ بلوچ معاشرہ نوّے کی دہائی میں ذگری نمازی فرقہ وارانہ بے سودمذہبی سیاسی سوداگری کے آگ میں نہ جلے۔