بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچستان سے طالبعلم کی جبری گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند ماہ سے بلوچستان میں طالبعلموں کی جبری گمشدگی میں شدت لائی جا رہی ہے۔ماورائے عدالت نوجوانوں کی جبری گمشدگی جیسے غیر آئینی اور غیر قانونی عمل میں آئے روز شدتاختیار کرنا نہایت ہی تشویشناک ہے۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں کے طالبعلموں کی تعلیمی تسلسل میں رکاوٹیں حائل کرنے کے لیے مختلف ہربوں کو آزمایا جا رہا ہے۔ایک جانب بلوچستان کے تعلیمی نظام کو زبوں حالی کا شکار کرتے ہوئے نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھا جا رہا ہے تو دوسری جانب تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالبعلموں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے طالبعلموں کو تسلسل کے ساتھ ماورائے عدالت جبری گمشدگی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔اس طرح کے غیر آئینی اور غیر قانونی عمل کا بنیادی محرک طالبعلموں کو تعلیم سے دور رکھنا اور اُن کے کیرئیر کو تباہ کرنا ہوتا ہے اور اِس عمل میں مسلسل کے ساتھ شدت لائی جا رہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے خضدار سے لاپتہ ہونے والے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طالبعلم حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی اسی تسلسل ہی کی ایک کڑی ہے۔حفیظ بلوچ ایم۔فِل فزکس کے طالبعلم ہیں اور جامعہ میں تعطیلات کے باعث گھر گئے ہوئے تھے جہاں انھیں ماورائے عدالت جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔بلوچستان کے کسی بھی شہر سے طالبعلم کی جبری گمشدگی کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اِس سے پہلے بھی سینکڑوں طالبعلم اِس غیر عمل کا شکار ہوئے ہیں جس کی واضح مثال گزشتہ سال کے آخر میں بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل سے دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی ہے جنھیں تاحال بازیاب نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو یکم نومبر 2021 کو جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور تین مہینے گزرنے کے باوجود تاحال انھیں منظر عام پر نہیں لایا گیا۔دونوں طالبعلموں کی باحفاظت بازیابی کے لیے طلبا تنظیمو ں کی جانب سے تین ہفتہ طویل احتجاجی دھرنادیا گیا جو حکومتی یقین دہانی کے بعد موخر کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے طالبعلموں کی بازیابی کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی لیکن حکومتی کمیٹی کی جانب سے تاحال کوئی خاطرخواہ اقدام نہیں لیا گیا اور تین مہینے گزرنے باوجود دونوں طالبعلم تاحال لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ 2 فروری کی شب لاء کالج تربت کے طالبعلم رازق علی کو تربت شہر سے ماورائے عدالت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور تاحال کوئی پرسان حال نہیں ہے۔رازق علی ایل ایل بی پانچویں سیمیسٹر کے طالبعلم ہیں ۔دوسری جانب بلوچستان میں سرگرم طلبا رہنماؤں کو خاموش رکھنے اور ان کی آواز کو دبانے کے لیے اجتماعی سزا پالیسی کے تحت اُن کے خاندان کو حراساں کیا جارہا ہے۔ رواں ہفتے بی ایس او کے سیکرٹری جنرل عظیم بلوچ کے بھائی کی جبری گمشدگی اسی تسلسل ہی کی کڑی ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں طالبعلموں کی جبری گمشدگی میں شدت تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس کا سبب بن رہی ہے اور طالبعلموں کی تعلیمی تسلسل میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔طالبعلموں کی ماورائے عدالت جبری گمشدگی ایک غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے جس میں شِدت اور تیزی تشویشناک ہے۔ہم حکومت وقت سے اپیل کرتے ہیں کہ طالبعلموں کی جبری گمشدگی جیسے غیر آئینی عمل کو بند کیا جائے اور حفیظ بلوچ، سہیل بلوچ، فصیح بلوچ سمیت غیر قانونی طریقے سے پابند سلاسل سینکڑوں طالبعلموں کو رہا کیا جائے۔
ABOUT
Balochistan Affairs is a non-partisan Multiplatform media forum, which is guided by an independent editorial policy. We intend to initiate and promote serious discussions on the affairs related to the Baloch and Balochistan through the free exchange of ideas and opinions from journalists, linguists, intellectuals, activists, and academia.
FOLLOW US
MOST READ
Contact Us:
Email:balochistanaffairs@gmail.com
Mobile/WhatsApp: +44 7459 170947
Copyright © 2023 BalochistanAffairs Media All Rights Reserves.