جمعے کے روز جاری کردہ ایک عوامی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں طبی عملے کی نصف تعداد کو چینی ‘سینوفارم ویکیسن‘ سے متعلق شدید شکوک و شبہات ہیں، جب کہ پاکستان میں اب تک کورونا وائرس کے خلاف فقط یہی ویکسین دستیاب ہے۔
پاکستان کی جانب سے صوبائی حکام کو 20 فروری کو سینوفارم ویکسین کی پانچ لاکھ چار ہزار چار سو خوراکیں تقسیم کی گئی تھیں، جب کہ وفاقی وزیر صحت فیصل سلطان کے مطابق جمعے کے روز تک فقط دو لاکھ تیس ہزار فرنٹ لائن ہیلتھ ورکز کو یہ ویکسین دی جا سکی ہے۔ رواں برس جنوری میں سلطان نے کہا تھا کہ شعبہ صحت سے وابستہ چار لاکھ ورکرز نے خود کو کورونا ویکسین کے لیے رجسٹرڈ کروایا ہے۔
گیلیپ پاکستان اور قومی فزیشن ایسوسی ایشن کے ایک مشترکہ جائزے میں بارہ فروری سے 20 فروری کے دوران 555 میڈیکل ورکرز سے ویکسینیشن سے متعلق ان کی رائے طلب کی گئی۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے خلاف چار ویکسینز کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے اور سینوفارم ان چار میں سے ایک ہے۔ بائیس کروڑ آبادی کے ملک پاکستان میں سینوفارم اس وقت واحد دستیاب ویکسین ہے۔
اس جائزے کے مطابق 81 فیصد ہیلتھ ورکرز نے ویکسین لگوانے کے حق میں رائے دی جب کہ ان میں سے 46 فیصد نے سینوفارم پر فائزر یا ایسٹرا زینیکا کو فوقیت دی۔ 58 فیصد طبی ورکرز ایسا تھا، جس کے نزدیک ویکیسن کی تیاری میں جلدبازی سے کام لیا گیا ہے، اس لیے وہ محفوظ نہیں ہے۔
گیلیپ پاکستان سے وابستہ بلال گیلانی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ”چینی برینڈ کو کوئی طبی تحقیق سے جوڑ نہیں پاتا ہے۔ اگر فائزر یا ایسٹرازینیکا کی پیش کش کی جاتی، تو ویکسین لگوانے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی تھی۔‘‘
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری سلمان کاظمی نے لاہور سے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ بات چیت میں کہا، ”کوئی ڈاکٹر ویکیسن لگوانے سے انکاری نہیں ہے تاہم کئی آکسفورڈ کی ایسٹرا زینیکا کی آمد کے منتظر ہیں۔‘‘
Courtesy: DW