طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد متعدد افغان خواتین کو نہ صرف حراست میں لیا گیا بلکہ انہیں ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
طالبان حکومت نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان خواتین کو اقوام متحدہ کے اداروں میں ملازمت جاری رکھنے کی اجازت فراہم نہیں کی جا سکتی۔
اقوام متحدہ نے منگل کو اس جنوبی ایشیائی ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ایک تازہ رپورٹ پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ”افغانستان میں عوامی اور روزمرہ کی زندگی کے بیشتر شعبوں میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت کو سختی سے محدود کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خواتین کے خلاف تازہ کارروائیاں بھی طالبان کے امتیازی اور غیر قانونی اقدامات کے سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔‘‘
اختلافی آوازوں کو دبانے کا سلسلہ
رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان حکام نے اس سال اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے کریک ڈاؤن جاری رکھا اور خاص طور پر ان لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، جو خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سے متعلق مسائل پر بات کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں ان چار خواتین کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جنہیں مارچ میں اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا، جب وہ دارالحکومت کابل میں تعلیم اور کام تک رسائی کا مطالبہ کرنے والے احتجاج میں شامل تھیں۔ تاہم ان چاروں خواتین کو ایک روز بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
ان کے علاوہ لڑکیوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی مہم چلانے والی سول سوسائٹی کی تنظیم ”پین پاتھ‘‘ کے سربراہ مطیع اللہ ویسا کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں فروری کے دوران شمالی صوبہ تخار میں خواتین کے حقوق کی کارکن پارِسا موباریز اور ان کے بھائی کی گرفتاری کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں سابق حکومت سے وابستہ ان افراد کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جن کو حالیہ کچھ عرصے کے دوران ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا ۔ رپورٹ کے مطابق پانچ مارچ کو جنوبی قندھار میں طالبان فورسز نے ایک سابق پولیس افسر کو ان کے گھر سے گرفتار کیا اور پھر انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف گزشتہ چھ ماہ کے دوران افغانستان میں 274 مردوں، 58 خواتین اور دو لڑکوں کو سرعام کوڑے مارے گئے۔